اور تڑپائے مجھے درد جگر آج کی رات

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اور تڑپائے مجھے درد جگر آج کی رات
by راجہ نوشاد علی خان

اور تڑپائے مجھے درد جگر آج کی رات
کل وہ آئیں گے نہیں آئے اگر آج کی رات

خود بخود کم ہے مرا درد جگر آج کی رات
کون آئے گا الٰہی مرے گھر آج کی رات

الٹے دیتا ہے نقاب رخ روشن کوئی
شام ہی سے ہوئی جاتی ہے سحر آج کی رات

میں جو بیتاب گیا بزم میں تو وہ بولے
خیر ہے خیر ہے آ نکلے کدھر آج کی رات

در مے خانہ اگر بند ہے مسجد کو چلو
مے کشو پڑ رہو اللہ کے گھر آج کی رات

ہاں ذرا چونک تو اینڈ اینڈ کے سونے والے
لے کسی عاشق مضطر کی خبر آج کی رات

ایک مدت سے جسے ڈھونڈ رہی تھیں آنکھیں
آنے والا ہے وہی رشک قمر آج کی رات

صبح ہوتے ترے بیمار کا دم نکلے گا
ہے یہ مہماں صفت شمع سحر آج کی رات

درد دل تو نے ہمیں مار ہی ڈالا ہوتا
وہ کلیجے سے لگاتے نہ اگر آج کی رات

کوئی سوتا ہے کہیں ساتھ کسی کے شاید
دل کے ہم راہ تڑپتا ہے جگر آج کی رات

تم تو مر جاؤ گے دم بھر میں تڑپ کے نوشادؔ
دور از حال وہ آئے نہ اگر آج کی رات

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse