اور اب کیا کہیں کہ کیا ہیں ہم

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اور اب کیا کہیں کہ کیا ہیں ہم
by نظام رامپوری

اور اب کیا کہیں کہ کیا ہیں ہم
آپ ہی اپنے مدعا ہیں ہم

اپنے عاشق ہیں اپنے وارفتہ
آپ ہی اپنے دل ربا ہیں ہم

آپ ہی خانہ آپ خانہ خدا
آپ ہی اپنی مرحبا ہیں ہم

عشق جو دل میں درد ہو کے رہا
خود اسی درد کی دوا ہیں ہم

راز دل کی طرح زمانے میں
تھے چھپے آج برملا ہیں ہم

کیوں نہ ہو عرش پر دماغ اپنا
کس کے کوچے کی خاک پا ہیں ہم

ہر کوئی آشنا سمجھتا ہے
اور یاں کس کے آشنا ہیں ہم

ابتدا کی بھی ابتدا ہیں ہم
انتہا کی بھی انتہا ہیں ہم

ہم تو بندے نظامؔ ان کے ہیں
وہ بجا کہتے ہیں "خدا ہیں ہم"

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse