اوروں کی بات یاں بہت کم ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اوروں کی بات یاں بہت کم ہے
by میر محمدی بیدار

اوروں کی بات یاں بہت کم ہے
ذکر خیر آپ کا ہی ہر دم ہے

جان تک تو نہیں ہے تجھ سے دریغ
اے میں قربان کیوں تو برہم ہے

گاہ رونا ہے کاہ ہنسنا ہے
عاشقی کا بھی زور عالم ہے

خوش نہ پایا کسی کو یاں ہم نے
دیکھی دنیا سرائے ماتم ہے

آہ جس دن سے آنکھ تجھ سے لگی
دل پہ ہر روز اک نیا غم ہے

مگر آنسو کسو کے پونچھے ہیں
آستیں آج کیوں تری نم ہے

اس کے عارض پہ ہے عرق کی بوند
یا کہ بیدارؔ گل پہ شبنم ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse