ان کے پیکان پہ پیکان چلے آتے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ان کے پیکان پہ پیکان چلے آتے ہیں
by نسیم بھرتپوری

ان کے پیکان پہ پیکان چلے آتے ہیں
دل میں گھر کرنے کو مہمان چلے آتے ہیں

دیکھ کر آئے ہیں کیا عارض و گیسو ان کے
لوگ حیران پریشان چلے آتے ہیں

چار انگل کا وہ پرچہ نہیں لکھتے مجھ کو
پاس اغیار کے فرمان چلے آتے ہیں

اپنی محفل میں مجھے دیکھ کے کہتا ہے وہ بت
کیوں مرے گھر میں مسلمان چلے آتے ہیں

بزم اغیار میں کس شخص نے گستاخی کی
کہ وہ خاموش پشیمان چلے آتے ہیں

دوش احباب یہ آگے ہے جنازہ میرا
پیچھے سر پیٹتے ارمان چلے آتے ہیں

کیا بتائیں کہ نسیمؔ آتے ہیں کیوں آپ کے گھر
مفت ہونے کو پشیمان چلے آتے ہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse