ان کے اک جاں نثار ہم بھی ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ان کے اک جاں نثار ہم بھی ہیں
by داغ دہلوی

ان کے اک جاں نثار ہم بھی ہیں
ہیں جہاں سو ہزار ہم بھی ہیں

تم بھی بے چین ہم بھی ہیں بے چین
تم بھی ہو بے قرار ہم بھی ہیں

اے فلک کہہ تو کیا ارادہ ہے
عیش کے خواست گار ہم بھی ہیں

کھینچ لائے گا جذب دل ان کو
ہمہ تن انتظار ہم بھی ہیں

بزم دشمن میں لے چلا ہے دل
کیسے بے اختیار ہم بھی ہیں

شہر خالی کئے دکاں کیسی
ایک ہی بادہ خوار ہم بھی ہیں

شرم سمجھے ترے تغافل کو
واہ کیا ہوشیار ہم بھی ہیں

ہاتھ ہم سے ملاؤ اے موسیٰ
عاشق روئے یار ہم بھی ہیں

خواہش بادۂ طہور نہیں
کیسے پرہیزگار ہم بھی ہیں

تم اگر اپنی گوں کے ہو معشوق
اپنے مطلب کے یار ہم بھی ہیں

جس نے چاہا پھنسا لیا ہم کو
دلبروں کے شکار ہم بھی ہیں

آئی مے خانے سے یہ کس کی صدا
لاؤ یاروں کے یار ہم بھی ہیں

لے ہی تو لے گی دل نگاہ تری
ہر طرح ہوشیار ہم بھی ہیں

ادھر آ کر بھی فاتحہ پڑھ لو
آج زیر مزار ہم بھی ہیں

غیر کا حال پوچھئے ہم سے
اس کے جلسے کے یار ہم بھی ہیں

کون سا دل ہے جس میں داغؔ نہیں
عشق میں یادگار ہم بھی ہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse