ان کی یہ ضد کہ مرے گھر میں نہ آئے کوئی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ان کی یہ ضد کہ مرے گھر میں نہ آئے کوئی
by حفیظ جونپوری

ان کی یہ ضد کہ مرے گھر میں نہ آئے کوئی
اپنی ہی ہٹ کہ مجھے خود ہی بلائے کوئی

وصل میں ہائے بگڑ کر یہ کسی کا کہنا
ہاتھ ٹوٹیں جو ہمیں ہاتھ لگائے کوئی

حشر میں دیکھ کے آمادۂ فریاد مجھے
کہتے ہیں طنز سے اب ان کو مٹائے کوئی

اصل اور نقل میں کیا فرق ہے کھل جائے ابھی
تیری تصویر جو یوسف سے ملائے کوئی

کیوں فلک ہم کو مٹائے جو تم اتنی کہہ دو
غم زدوں کو نہ محبت کے ستائے کوئی

ان کی رگ رگ میں زمانے کی بھری ہیں گھاتیں
بھولی صورت پہ حسینوں کی نہ جائے کوئی

ہائے جھنجھلا کے شب وصل کسی کا کہنا
نیند آتی ہے ہمیں اب نہ جگائے کوئی

بت کدے میں تو یہ شکلیں بھی نظر آتی ہیں
شیخ کعبے میں دھرا کیا ہے کہ جائے کوئی

پارسائی میں بھی نفرت ہے رکھائی سے حفیظؔ
تھوڑی پی لیں جو محبت سے پلائے کوئی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse