ان کی چٹکی میں دل نہ مل جاتا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ان کی چٹکی میں دل نہ مل جاتا
by سخی لکھنوی

ان کی چٹکی میں دل نہ مل جاتا
تو یہ سکہ ہمارا چل جاتا

شمع تھا یار جو پگھل جاتا
اور میں پروانہ تھا جو جل جاتا

کیا کہیں سیر کو وہ گل نہ گیا
باغ کا رنگ ہی بدل جاتا

گور ہی سے نہ بن پڑی ورنہ
اژدہا تو ہمیں نگل جاتا

اب تو پستاں نکالئے صاحب
اتنے سن میں انار پھل جاتا

صدمے گھیرے ہیں ہجر میں دم کو
سانس پاتا تو یہ نگل جاتا

کیا گراتا سخیؔ یہ چرخ مجھے
یا علیؔ کہتا اور سنبھل جاتا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse