ان کی رفتار سے دل کا عجب احوال ہوا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ان کی رفتار سے دل کا عجب احوال ہوا
by وزیر علی صبا لکھنؤی

ان کی رفتار سے دل کا عجب احوال ہوا
رندہ گیا پس گیا مٹی ہوا پامال ہوا

دشت وحشت کا علاقہ مجھے امسال ہوا
داغ سودا صفت نیر اقبال ہوا

اس بکھیڑے سے الٰہی کہیں چھٹکارا ہو
عشق گیسو نہ ہوا جان کا جنجال ہوا

نظر لطف نہ کی تو نے مرے رونے پر
طفل اشک اے مہ خوبی نہ خوش اقبال ہوا

ہیں وہ صوفی جو کبھی نالۂ ناقوس سنا
وجد کرنے لگے ہم دل کا عجب حال ہوا

پڑ گیا ان پہ مرے پیچ میں لانے کا وبال
کیا پریشان ترے گیسوؤں کا حال ہوا

دولت فقر ہو اے منعمو اور کملی ہو
فخر کیا ہے جو دوشالہ ہوا رومال ہوا

اپنی قسمت کا نوشتہ جو دکھایا ہم نے
حشر کے روز غلط نامۂ اعمال ہوا

آسماں نے مجھے محروم شہادت رکھا
تیغ قاتل کے لئے بخت‌ سیہ ڈھال ہوا

لوگ کہنے لگے کندن پہ چڑھائے مینا
سبزۂ خط سے وہ خوش رنگ ترا گال ہوا

تیغ حسن اے گل تر ہو گئی خون آلودہ
مجھ پہ غصے میں تیرا منہ جو بہت لال ہوا

طائر دل کی لئے آپ نے صیادی کی
رشتۂ دام‌ بلا زلف کا ہر بال ہوا

لا مکاں تک کہیں ٹھہرا نہ مرا پائے خیال
مزرع سبز فلک بیچ میں پامال ہوا

اے صباؔ آپ رعایت نہ کریں لفظوں کی
زر گل پایا جو گلچیں نے تو کیا مال ہوا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse