ان کی رخصت اک قیامت تھی دم اظہار صبح

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ان کی رخصت اک قیامت تھی دم اظہار صبح
by منشی نوبت رائے نظر لکھنوی

ان کی رخصت اک قیامت تھی دم اظہار صبح
شام تک بچتا نظر آتا نہیں بیمار صبح

مجھ کو بھی اے شمع رو لے وصل کی شب ہے اخیر
اور دو آنسو بہا اے کشتۂ آزار صبح

کھو دیا طول شب فرقت نے لطف انتظار
دیدۂ بے خواب کو ہے حسرت دیدار صبح

وصل کی شب بجھ گیا تھا جو ہمارا داغ دل
مہر بن کر اب وہی ہے طرۂ دستار صبح

صبح سے پہلے الٹ دی اس نے چہرے سے نقاب
اب کوئی کافر بھی کر سکتا نہیں انکار صبح

رات بھر میری زباں پر سر گذشت شام غم
ان کے لب ہیں آشنائے لذت گفتار صبح

وصل کی بے لطفیاں بھی لطف سے خالی نہیں
رات بھر دل کو مزہ دیتی رہی تکرار صبح

عید ملنے آئیں وہ گر عید کا نکلا ہے چاند
شام آئے ساتھ لے کر دولت بیدار صبح

وصل میں ہے اپنی قسمت کی خلش بھی یادگار
دامن شب سے الجھ جاتے ہیں اکثر خار صبح

دے صبوحی جلد ساقی اب نہیں ماہ صیام
بے سبب کیوں راہ دیکھیں شام کی مے خوار صبح

دیکھنا کیا جلد گزری ہے شب وعدہ نظرؔ
وہ ادھر آئے ادھر ظاہر ہوئے آثار صبح

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse