ان کی آرائش سے میرے کام بن جائیں گے کیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ان کی آرائش سے میرے کام بن جائیں گے کیا
by ثاقب لکھنوی

ان کی آرائش سے میرے کام بن جائیں گے کیا
دل کی گتھی شانہ ہائے زلف سلجھائیں گے کیا

وصل کے وعدے سے خوش ہو کر نہ مر جائیں گے کیا
نامہ بر ہنستا ہوا آتا ہے خود آئیں گے کیا

قیدیٔ غم تربتوں میں اور ان کو یہ خیال
کاٹنے میں اک شب فرقت کے مر جائیں گے کیا

کام اپنا کر چکے اہل وفا شک ہے تو ہو
سر نہیں باقی شہیدوں کے قسم کھائیں گے کیا

عرض مطلب کے لئے اے دل زباں کھلتی نہیں
کچھ اشارے میں کروں گا وہ سمجھ جائیں گے کیا

ہاتھ ادھر اٹھتا نہیں ہے تار ادھر باقی نہیں
دیں گے وہ کیا اور ہم دامن کو پھیلائیں گے کیا

قصۂ فرہاد و مجنوں کیوں سناتے ہو ہمیں
جب پریشانی سے مطلب ہے تو گھبرائیں کیا

مہمان کوئے جاناں ہو کے دل بیتاب ہے
میں تو سمجھاتا نہیں وہ بھی نہ سمجھائیں گے کیا

مست رہتے ہیں ہمیشہ مے فروشان‌‌ جمال
ہم تو مانگیں گے کوئی ساغر وہ فرمائیں گے کیا

کیوں نہ چپ بیٹھوں قفس میں دور ہی فصل بہار
آہ و زاری سے مری موسم بدل جائیں گے کیا

تنکے تنکے کا خدا حافظ چلے ہم باغ سے
الوداع اے آشیاں اب جا کے پھر آئیں گے کیا

دل کی بیماری کا عقدہ کھولنا دشوار ہے
جو نہیں سمجھے وہ ثاقبؔ مجھ کو سمجھائیں گے کیا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse