ان کو دماغ پرسش اہل محن کہاں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ان کو دماغ پرسش اہل محن کہاں
by بیخود بدایونی

ان کو دماغ پرسش اہل محن کہاں
یہ بھی سہی تو ہم کو مجال سخن کہاں

اک بوند ہے لہو کی مگر بے قرار ہے
دل کو چھپائے زلف شکن در شکن کہاں

تمکین خامشی نے انہیں بت بنا دیا
سب اس گمان میں ہیں کہ ان کے دہن کہاں

وہ شام وعدہ محو ہیں آرائشوں میں اور
پہونچا ہے لے کے مجھ کو مرا سوء ظن کہاں

بیخودؔ نہ کیوں ہوں دوریٔ استاد ہے ملول
سوچو تو مارواڑ کہاں ہے دکن کہاں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse