ان کو دل دے کے پشیمانی ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ان کو دل دے کے پشیمانی ہے
by حفیظ جونپوری

ان کو دل دے کے پشیمانی ہے
یہ بھی اک طرح کی نادانی ہے

وصل سے آج نیا ہے انکار
تم نے کب بات مری مانی ہے

آپ دیتے ہیں تسلی کس کو
ہم نے اب اور ہی کچھ ٹھانی ہے

حال بن پوچھے کہے جاتا ہوں
اپنے مطلب کی یہ نادانی ہے

کس قدر بار ہوں غم خواروں پر
کیا سبک میری گراں جانی ہے

گھر بلا کر وہ مجھے لوٹتے ہیں
یہ نئی طرح کی مہمانی ہے

ہم سے وحشت کی نہ لے او مجنوں
ہم نے بھی خاک بہت چھانی ہے

خاک اڑتی ہے جدھر جاتا ہوں
کیا مقدر کی پریشانی ہے

گھر بھی ویرانہ نظر آتا ہے
ہائے کیا بے سر و سامانی ہے

آئی کیوں ان کی شکایت لب تک
ہم کو خود اس کی پشیمانی ہے

کہیں دو دن نہ رہا جم کے حفیظؔ
ایک آوارہ ہے سیلانی ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse