ان کو بلائیں اور وہ نہ آئیں تو کیا کریں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ان کو بلائیں اور وہ نہ آئیں تو کیا کریں
by اختر شیرانی

ان کو بلائیں اور وہ نہ آئیں تو کیا کریں
بے کار جائیں اپنی دعائیں تو کیا کریں

اک زہرہ وش ہے آنکھ کے پردوں میں جلوہ گر
نظروں میں آسماں نہ سمائیں تو کیا کریں

مانا کہ سب کے سامنے ملنے سے ہے حجاب
لیکن وہ خواب میں بھی نہ آئیں تو کیا کریں

ہم لاکھ قسمیں کھائیں نہ ملنے کی سب غلط
وہ دور ہی سے دل کو لبھائیں تو کیا کریں

بد قسمتوں کا یاد نہ کرنے پہ ہے یہ حال
اللہ اگر وہ یاد ہی آئیں تو کیا کریں

ناصح ہماری توبہ میں کچھ شک نہیں مگر
شانہ ہلائیں آ کے گھٹائیں تو کیا کریں

مے خانہ دور راستہ تاریک ہم مریض
منہ پھیر دیں ادھر جو ہوائیں تو کیا کریں

راتوں کے دل میں یاد بسائیں کسی کی ہم
اخترؔ حرم میں وہ نہ بلائیں تو کیا کریں

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse