ان کا برباد کرم کہنے کے قابل ہو گیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ان کا برباد کرم کہنے کے قابل ہو گیا
by باسط بھوپالی

ان کا برباد کرم کہنے کے قابل ہو گیا
درد پہلو میں جہاں بھی تھا وہیں دل ہو گیا

بارہا دیکھا ہے دل نے او مرے محو خرام
حشر اٹھا اور ترے قدموں میں شامل ہو گیا

دل جہاں اچھلا فضائے دو جہاں پر چھا گیا
عرصۂ کونین جب سمٹا مرا دل ہو گیا

بے خبر رہنا ہی اچھا اس جہان غیر میں
مٹ گیا جو واقف آداب محفل ہو گیا

جو نگاہ شوق اٹھی حسن بن کر رہ گئی
جو قدم ہم نے اٹھایا نقش منزل ہو گیا

یا کبھی منزل تھی مقصود مذاق جستجو
یا مذاق جستجو مقصود منزل ہو گیا

ہائے باسطؔ یہ مرے خون تمنا کا اثر
اور بھی رنگین کچھ دامان قاتل ہو گیا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse