ان نے کیا تھا یاد مجھے بھول کر کہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ان نے کیا تھا یاد مجھے بھول کر کہیں
by خواجہ میر درد

ان نے کیا تھا یاد مجھے بھول کر کہیں
پاتا نہیں ہوں تب سے میں اپنی خبر کہیں

آ جائے ایسے جینے سے اپنا تو جی بتنگ
جیتا رہے گا کب تلک اے خضر مر کہیں

پھرتی رہی تڑپتی ہی عالم میں جا بہ جا
دیکھا نہ میری آہ نے روئے اثر کہیں

مدت تلک جہان میں ہنستے پھرا کیے
جی میں ہے خوب روئیے اب بیٹھ کر کہیں

یوں تو نظر پڑے ہیں دل افگار اور بھی
دل ریش کوئی آپ سا دیکھا نہ پر کہیں

ظالم جفا جو چاہے سو کر مجھ پہ تو ولے
پچھتاوے پھر تو آپ ہی ایسا نہ کر کہیں

پھرتے تو ہو بنائے سج اپنی جدھر تدھر
لگ جاوے دیکھیو نہ کسو کی نظر کہیں

پوچھا میں درد سے کہ بتا تو سہی مجھے
اے خانماں خراب ہے تیرے بھی گھر کہیں

کہنے لگا مکان معین فقیر کو
لازم ہے کیا کہ ایک ہی جاگہ ہو ہر کہیں

درویش ہر کجا کہ شب آمد سرائے اوست
تو نے سنا نہیں ہے یہ مصرع مگر کہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse