ان ظالموں کو جور سوا کام ہی نہیں
Appearance
ان ظالموں کو جور سوا کام ہی نہیں
گویا کہ ان کے ظلم کا انجام ہی نہیں
غم وصل میں ہے ہجر کا ہجراں میں وصل کا
ہرگز کسی طرح مجھے آرام ہی نہیں
کیا کیا خرابیاں میں ترے واسطے سہیں
تس پر بھی چاہنے کا مرے نام ہی نہیں
اب ہم دنوں کو اپنے نہ روئیں تو کیا کریں
کرنے تھے جن میں عیش وے ایام ہی نہیں
وے شخص جن سے فخر جہاں کو تھا اب وے ہائے
ایسے گئے کہ ان کا کہیں نام ہی نہیں
تم جو ہر اک کے دل کو ستاتے ہو کیا میاں
آغاز کا جفا کے کچھ انجام ہی نہیں
تاباںؔ بتا میں عجز کہاں تک کیا کروں
جز ترک مہر یار کا پیغام ہی نہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |