ان سے ہم لو لگائے بیٹھے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ان سے ہم لو لگائے بیٹھے ہیں
by انور دہلوی

ان سے ہم لو لگائے بیٹھے ہیں
آگ دل میں دبائے بیٹھے ہیں

وہ جو گردن جھکائے بیٹھے ہیں
حشر کیا کیا اٹھائے بیٹھے ہیں

تیرے کوچے کے بیٹھنے والے
اپنی ہستی مٹائے بیٹھے ہیں

زور بل اف رے اس نزاکت پر
خلق کا دل دکھائے بیٹھے ہیں

کیوں اٹھیں ان کی بزم سے اغیار
رنگ اپنا جمائے بیٹھے ہیں

کچھ نہیں خاک دشت الفت میں
ہم بہت خاک اڑائے بیٹھے ہیں

ہم نہیں آپ میں خوشی سے کہ وہ
گھر میں مہمان آئے بیٹھے ہیں

کیوں نہ پھیلائیں پاؤں بزم میں غیر
آپ کے سر چڑھائے بیٹھے ہیں

جنگجو وہ ملاپ میں بھی رہے
مجھ سے آنکھیں لڑائے بیٹھے ہیں

دل کے کھوٹے ہیں سب یہ سیم اندام
خوب ہم آزمائے بیٹھے ہیں

حسن نظارہ سوز ہے پردہ
گو وہ پردہ اٹھائے بیٹھے ہیں

اس کی عارض سے روکشی کیسی
گل پہ ہم خار کھائے بیٹھے ہیں

جیتے ہیں نام کو وگرنہ ہم
عشق میں جی کھپائے بیٹھے ہیں

ہار دیکھا بھی خون عاشق کا
آپ اور سر جھکائے بیٹھے ہیں

کیوں کہ بگڑا ہوا انہیں کہیے
بگڑے اور منہ بنائے بیٹھے ہیں

جی چرانا اور اس پہ ہائے ستم
آپ آنکھیں چرائے بیٹھے ہیں

شرم بھی اک طرح کی چوری ہے
وہ بدن کو چرائے بیٹھے ہیں

جو کہ بیٹھے ہیں ان کی پیش نگاہ
موت آنے کی جائے بیٹھے ہیں

دیکھ ساقی کو اپنے دریا دل
ظرف میکش بڑھائے بیٹھے ہیں

اس کے در سے لگا کے مقتل تک
جاں فدا جائے جائے بیٹھے ہیں

غیر باتوں سے اور ہم آنکھوں سے
ایک طوفاں اٹھائے بیٹھے ہیں

ہے یہ روشن کہ ہے حجاب میں چاند
آپ کیا منہ چھپائے بیٹھے ہیں

اس خوشی میں حنا لگاتے ہیں
کہ مرا خوں بہائے بیٹھے ہیں

جانتا ہوں کہ قتل پر میرے
آپ بیڑا اٹھائے بیٹھے ہیں

میرے دل سوز بن کے یار مرے
مفت جی کو جلائے بیٹھے ہیں

کیا سکھائے گا ان کو ظلم فلک
خود وہ سیکھے سکھائے بیٹھے ہیں

ہے جہاں اس سے فیضیاب انورؔ
جس کے در پر ہم آئے بیٹھے ہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse