ان سے دو آنکھ سے آنسو بھی بہائے نہ گئے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ان سے دو آنکھ سے آنسو بھی بہائے نہ گئے
by عاشق اکبرآبادی

ان سے دو آنکھ سے آنسو بھی بہائے نہ گئے
قبر عاشق کے نشاں بھی تو مٹائے نہ گئے

ہم مٹے بھی تو مٹے خاک جو حسرت نہ مٹی
ہم گئے بھی تو گئے کیا جو بلائے نہ گئے

بزم دشمن میں ابھی تھے ابھی اپنے گھر میں
آ کے یوں بیٹھے کہ جیسے کہیں آئے نہ گئے

برق کہئے کہ چھلاوا جو چمک دکھلا کر
اس طرح آئے کہ آئے بھی اور آئے نہ گئے

ہیں وہ عاشقؔ کہ جگہ پا کے نہ نکلے دل سے
یاد آئے تو جنوں مجھ سے بھلائے نہ گئے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse