ان سے دل ملتے ہی فرقت کی بلا بھی آئی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ان سے دل ملتے ہی فرقت کی بلا بھی آئی
by راغب بدایونی

ان سے دل ملتے ہی فرقت کی بلا بھی آئی
جان آنے بھی نہ پائی کہ قضا بھی آئی

اب تو تم گور غریباں کو چلو بے پردہ
اس کی شمعوں کو ہوا جا کے بجھا بھی آئی

ہجر میں عرش سے ناکام دعا ہی نہ پھری
نارسا ہو کے مری آہ رسا بھی آئی

بات پوری نہ سنی ہم نے کبھی ناصح کی
ٹوک اٹھے اپنی سمجھ میں جو ذرا بھی آئی

پھیر لی رخ سے نظر اس نے کس انداز کے ساتھ
آئنے میں جو نظر اپنی ادا بھی آئی

دیکھ کر حال مرا ان سے ہنسی رک نہ سکی
روکنے کے لئے ہر چند حیا بھی آئی

نعش پہ آ کے مری اس نے وہ باتیں چھیڑیں
ہر عزادار کو عبرت بھی حیا بھی آئی

نگہ شوق نے کیا راز نہاں فاش کیا
ہم سے پردہ بھی ہوا آج حیا بھی آئی

نزع میں آ کے مری صرف یہ پوچھا اس نے
اب بتاؤ کسی مصرف میں وفا بھی آئی

دل ہی خستہ نہ ہوا لشکر غم کے ہاتھوں
بلکہ اس معرکے میں کام دعا بھی آئی

دعویٰ سحر بیانی ہے عبث اے راغبؔ
میرؔ صاحب کی تمہیں طرز ادا بھی آئی

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse