ان آنکھوں نے کیا کیا تماشا نہ دیکھا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ان آنکھوں نے کیا کیا تماشا نہ دیکھا
by داغ دہلوی

ان آنکھوں نے کیا کیا تماشا نہ دیکھا
حقیقت میں جو دیکھنا تھا نہ دیکھا

تجھے دیکھ کر وہ دوئی اٹھ گئی ہے
کہ اپنا بھی ثانی نہ دیکھا نہ دیکھا

ان آنکھوں کے قربان جاؤں جنہوں نے
ہزاروں حجابوں میں پروانہ دیکھا

نہ ہمت نہ قسمت نہ دل ہے نہ آنکھیں
نہ ڈھونڈا نہ پایا نہ سمجھا نہ دیکھا

مریضان الفت کی کیا بے کسی ہے
مسیحا کو بھی چارہ فرما نہ دیکھا

بہت درد مندوں کو دیکھا ہے تو نے
یہ سینہ یہ دل یہ کلیجا نہ دیکھا

وہ کب دیکھ سکتا ہے اس کی تجلی
جس انسان نے اپنا جلوا نہ دیکھا

بہت شور سنتے تھے اس انجمن کا
یہاں آ کے جو کچھ سنا تھا نہ دیکھا

صفائی ہے باغ محبت میں ایسی
کہ باد صبا نے بھی تنکا نہ دیکھا

اسے دیکھ کر اور کو پھر جو دیکھے
کوئی دیکھنے والا ایسا نہ دیکھا

وہ تھا جلوہ آرا مگر تو نے موسیٰ
نہ دیکھا نہ دیکھا نہ دیکھا نہ دیکھا

گیا کارواں چھوڑ کر مجھ کو تنہا
ذرا میرے آنے کا رستا نہ دیکھا

کہاں نقش اول کہاں نقش ثانی
خدا کی خدائی میں تجھ سا نہ دیکھا

تری یاد ہے یا ہے تیرا تصور
کبھی داغؔ کو ہم نے تنہا نہ دیکھا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse