انہیں کے کام الٰہی مرا لہو آئے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
انہیں کے کام الٰہی مرا لہو آئے
by ریاض خیرآبادی

انہیں کے کام الٰہی مرا لہو آئے
رنگیں جو ہاتھ لہو میں حنا کی بو آئے

مریض ہوش میں آئے نہ آئے تو آئے
جو تو نہ آئے ترے گیسوؤں کی بو آئے

عتاب یار کا اس کے سوا جواب نہ تھا
ہم آئے تو لیے آئینہ رو بہ رو آئے

نہ پی زبان سے میرا بھی ذکر کر دینا
کلیم طور پر ان سے جو گفتگو آئے

نہ جھوٹ بول کہ ہم شام سے کل آئیں گے
نہ کھا قسم ارے جھوٹی کبھی جو تو آئے

نماز ہوگی ادا دخت رز کے دامن پر
ہماری بزم میں جو آئے با وضو آئے

طلب کیے کبھی ہم نے اگر پس توبہ
بہت بھرے ہوئے ہم سے خم و سبو آئے

اترنے والے ابھی تک نہ بام سے اترے
تڑپنے والے تڑپ کر فلک کو چھو آئے

گراں دماغ وہ ہیں بوئے گل کی تیزی سے
نسیم کہہ دے ذرا ہلکی ہو کے بو آئے

نثار وصل کی راتیں اس ایک ساعت پر
ہم انتظار میں تیرے ہوں اور تو آئے

یہ جانتے ہیں کہ نکلا ہوا ہے نام اس کا
حسین حشر میں کیوں میرے روبرو آئے

کھلے جو کوئی تو کھل کر کسی سے باتیں ہوں
اٹھے حجاب تو کچھ لطف گفتگو آئے

دلائے یاد جو وعدے تو بولے جھنجھلا کر
یہ اور حشر میں لینے کو آبرو آئے

کبھی کی پی ہوئی کام آئے آج حشر کے دن
خدا کے سامنے مے نوش سرخ رو آئے

ریاضؔ تھی جو مقدر میں باز گشت شباب
جوان ہونے کو پیری میں لکھنؤ آئے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse