انہیں لوگوں کی بدولت یہ حسیں اچھے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
انہیں لوگوں کی بدولت یہ حسیں اچھے ہیں
by مضطر خیرآبادی

انہیں لوگوں کی بدولت یہ حسیں اچھے ہیں
چاہنے والے ان اچھوں سے کہیں اچھے ہیں

کوچۂ یار سے یا رب نہ اٹھانا ہم کو
اس برے حال میں بھی ہم تو یہیں اچھے ہیں

نہ کوئی داغ نہ دھبا نہ حرارت نہ تپش
چاند سورج سے بھی یہ ماہ جبیں اچھے ہیں

کوئی اچھا نظر آ جائے تو اک بات بھی ہے
یوں تو پردے میں سبھی پردہ نشیں اچھے ہیں

تیرے گھر آئیں تو ایمان کو کس پر چھوڑیں
ہم تو کعبے ہی میں اے دشمن دیں اچھے ہیں

ہیں مزے حسن و محبت کے انہیں کو حاصل
آسماں والوں سے یہ اہل زمیں اچھے ہیں

ایک ہم ہیں کہ جہاں جائیں برے کہلائیں
ایک وہ وہ ہیں کہ جہاں جائیں وہیں اچھے ہیں

کوچۂ یار سے محشر میں بلاتا ہے خدا
کہہ دو مضطرؔ کہ نہ آئیں گے یہیں اچھے ہیں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse