انکار ہم سے غیر سے اقرار بس جی بس

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
انکار ہم سے غیر سے اقرار بس جی بس
by نظیر اکبر آبادی

انکار ہم سے غیر سے اقرار بس جی بس
دیکھے تمہارے ہم نے یہ اطوار بس جی بس

اتنا ہوں جائے رحم جو کرتا ہے وہ جفا
تو اس سے رو کے کہتے ہیں اغیار بس جی بس

ساقی ہمیں پلائیے یوں جام پے بہ پے
جو ہم نشین کہہ اٹھیں یک بار بس جی بس

ہوں ناامید وصل سے یوں جیسے وقت نزع
رو کر کہے طبیب سے بیمار بس جی بس

غش ہوں میں وقت بوسہ جو کہتا ہے ہنس کے وہ
منہ کو ہٹا ہٹا کے بہ تکرار بس جی بس

اس کا جو بس جی بس مجھے یاد آوے ہے تو آہ
پہروں تلک میں کہتا ہوں ہر بار بس جی بس

کل وہ جو بولا ٹک تو کہا ہم نے منہ پھرا
خیر اب نہ ہم سے بولئے زنہار بس جی بس

ہم دل لگا کے تم سے ہوے یاں تلک بہ تنگ
جو اپنے جی سے کہتے ہیں لاچار بس جی بس

سن کر کہا کہ کیا مرے لگتی ہے دل میں آگ
شکوہ سے جب کرے ہے تو اظہار بس جی بس

ایسے طمانچے ماروں گا منہ میں ترے نظیرؔ
گر تو نے مجھ سے پھر کہا ایک بار بس جی بس

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse