انس ہے خانۂ صیاد سے گلشن کیسا
انس ہے خانۂ صیاد سے گلشن کیسا
ناز پرورد قفس ہوں میں نشیمن کیسا
ہم وہ عریاں ہیں کہ واقف نہیں اے جوش جنوں
نام کس شے کا گریبان ہے دامن کیسا
اپنی آزردہ دلی بعد فنا کام آئی
ڈھیر یہاں گرد کدورت کے ہیں مدفن کیسا
کہہ دیا بس کہ تری آہ میں تاثیر نہیں
یہ نہ دیکھا کہ یہ سینہ میں ہے روزن کیسا
چھٹ کے اس پھول سے برباد پڑے پھرتے ہیں
ہم تو اب طائر نگہت ہیں نشیمن کیسا
دل اسے دے کے چلے ملک عدم کو بے خوف
مال رکھتے نہیں اندیشۂ رہزن کیسا
دل بے تاب کی ہے سینۂ سوزاں میں صدا
اصل پارہ کی ہے کیا دانۂ گل خن کیسا
تھا کبھی دور اسیران قفس اے صیاد
اب تو اک پھول کی محتاج ہیں گلشن کیسا
چار دن میں یہ زمانہ بھی گزر جائے گا
ابھی روئیں گے جوانی کو لڑکپن کیسا
سخت جاں ہیں تری تلوار سے کیا خوف ہمیں
سختیٔ مرگ سے دبتے نہیں آہن کیسا
جل گئے صورت پروانہ تب عشق سے ہم
پھینک دے لاش اٹھا کر کوئی مدفن کیسا
ایک دن ابلق ایام کرے گا پامال
مجھ سے رہ رہ کے بگڑتا ہے یہ توسن کیسا
عشق سے کام نہ تھا حسن کی پروا بھی نہ تھی
یاد آتا ہے جوانی میں لڑکپن کیسا
کھیلتے ہو دل بے تاب سے پھولوں کی طرح
اور ہوتا ہے مری جان لڑکپن کیسا
شمع سے آپ کے سوزاں یہ سنا کرتے ہیں
کوئی محتاج کفن بھی نہ ہو مدفن کیسا
چاہتا ہوں کوئی دیکھے نہ تیری تیغ کے زخم
چشم جراح ہے کیا دیدۂ سوزن کیسا
نقش پا ہیں ہوس نام و نشاں خاک نہیں
ہم تو اٹھنے کے لیے بیٹھے ہیں مسکن کیسا
آندھیاں گرم جو چلتی ہیں مری آہوں سے
منہ چھپاتا ہے چراغ تہ دامن کیسا
سینہ اپنا ہے ہمارا دل سوزاں اپنا
شمع فانوس و چراغ تہ دامن کیسا
دور جب سے صفت برگ خزاں دیدہ ہے
یاد آتا ہے شب و روز وہ گلشن کیسا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |