انسان ہے تو کبر سیں کہتا ہے کیوں انا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
انسان ہے تو کبر سیں کہتا ہے کیوں انا
by شاہ مبارک آبرو

انسان ہے تو کبر سیں کہتا ہے کیوں انا
آدم تو ہم سنا ہے کہ وہ خاک سے بنا

کیسا ملا ہے ہم سیں کہ اب لگ ہے انمنا
سن کر ہماری بات کوں کرتا ہے ہاں نہ نا

مکھڑے کی نو بہار ہوئی خط سے آشکار
سبزہ نہ تھا یہ حسن کا بنجر تھا پر گھنا

مردا ہے بے وصال رہے گو کہ جاگتا
سوتا ہوں یار ساتھ سو زندوں میں جاگنا

دونی بیماری جب سیں بتاتے ہیں فاحشہ
مل مل کے جس قدر کہ گھناتے ہیں ابٹنا

یوں دل ہمارا عشق کی آتش میں خوش ہوا
بھن کر تمام آگ میں کھلتا ہے جوں چنا

نہیں آب و گل صفت ترے تن کے خمیر کی
کرتا ہوں جان و دل کوں لگا اس کی میں ثنا

جب آبروؔ کا بیاہ ہوا بکر فکر سیں
تب شاعروں نے نام رکھا اس کا بت بنا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.