انسان ہوس پیشہ سے کیا ہو نہیں سکتا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
انسان ہوس پیشہ سے کیا ہو نہیں سکتا
by قربان علی سالک بیگ

انسان ہوس پیشہ سے کیا ہو نہیں سکتا
مجبور ہے اس سے کہ خدا ہو نہیں سکتا

وہ عقدہ مرے کام میں تقدیر نے ڈالا
جو ناخن تدبیر سے وا ہو نہیں سکتا

دہشت سے کوئی نام بھی لیتا نہیں ورنہ
اس بزم میں کیا ذکر مرا ہو نہیں سکتا

کیوں کر ہو حریص ستم عشق کی سیری
غم رزق مقدر ہے سوا ہو نہیں سکتا

دل کیوں کہ خدنگ نگہ یار سے بچ جائے
یہ تیر قضا کا ہے خطا ہو نہیں سکتا

تمکیں سے نہ دیکھے جو کبھی آئنہ جھک کر
وہ مرتکب شرم و حیا ہو نہیں سکتا

ماتم زدہ کے ہاتھ سے گھبرا نہ شب وصل
عادت ہے کہ سینے سے جدا ہو نہیں سکتا

کہنے پہ چلے دل کے عبث یہ بھی نہ جانا
گمراہ کبھی راہنما ہو نہیں سکتا

ہے چال تری باعث آسودگیٔ حلق
خجلت کے سبب حشر بپا ہو نہیں سکتا

یہ درد ہے تیرا ہی کہ ہے جان سے شیریں
ہر درد میں ظالم یہ مزا ہو نہیں سکتا

اے طائر جاں شکوۂ تکلیف قفس کیوں
کیا تو قفس تن سے رہا ہو نہیں سکتا

غیرت ہے جو مجھ میں تو وہ کہتے ہیں سر بزم
پروانے سے جو کام ہوا ہو نہیں سکتا

وہ غم زدہ بنتے ہیں مری نعش پہ لیکن
دل خوش ہے کہ لب نوحہ سرا ہو نہیں سکتا

ہم زمزمہ سنج ارنی بن نہیں سکتے
تو بام پہ کیا جلوہ نما ہو نہیں سکتا

میں اس قدر اچھا تو نہیں ہوں کہ بہر آؤں
منصور نے دعویٰ جو کیا ہو نہیں سکتا

میں اس نگہ ناز کا محکوم ہوں سالکؔ
وابستۂ احکام قضا ہو نہیں سکتا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse