انسان کی فریاد

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
انسان کی فریاد
by غلام بھیک نیرنگ

ہاں اے مصاف ہستی! مت پوچھ مجھ سے کیا ہوں
اک عرصۂ بلا ہوں اک لقمۂ فنا ہوں
مجبوریوں نے ڈالا گردن میں میری پھندا
خود کردۂ وفا ہوں جاں دادۂ رضا ہوں
صیاد حادثے کا کرتا ہے میرا پیچھا
مرغ بریدہ پر ہوں صید شکستہ پا ہوں
ہے ذات میری مجمع ساری برائیوں کا
کہنے کو میں بڑا ہوں لیکن بہت برا ہوں
آزادیوں کی مجھ پر تہمت ہی ہے سراسر
میں قیدیٔ ہوس ہوں میں بندۂ ہوا ہوں
اک بات ہو بتاؤں اک درد ہو سناؤں
روؤں بھلا کہاں تک کب تک پڑا کراہوں
کم بخت دل کچھ ایسا میں ساتھ لے کے آیا
اک لمحہ جس کے ہاتھوں دنیا میں سکھ نہ پایا
جو جوش اس میں اٹھا حالات نے دبایا
جو شعلہ اس میں بھڑکا تقدیر نے بجھایا
امید کا یہ غنچہ کھلتے کبھی نہ دیکھا
یہ آرزو کا پودا پھلتا نظر نہ آیا
گو اس میں موجزن تھی قوم و وطن کی الفت
لیکن غرض نے اس کو کچھ اور ہی سکھایا
ہوتی نہیں رسائی امید کے افق تک
طول امل نے اس کو اک جال میں پھنسایا
کی رہبری خرد نے ہر چند رہنمائی
اس جہد پر بھی لیکن کھلتی نہیں سچائی
پایا نہ میں نے اب تک مقصد کا اپنے ساحل
کی بحر معرفت میں دن رات آشنائی
اس جستجو میں میں نے کی سیر طور و ایمن
پربت کو گھر بنایا جنگل سے لو لگائی
مندر کو جا کے دیکھا گرجا میں جا کے ڈھونڈا
مسجد کو چھان مارا اس کی نہ دید پائی
جوگی کا روپ دھارا بن میں کیا گزارا
تن پر بھبھوت مل کر دھونی بہت رمائی
جپ تپ میں عمر اپنی میں نے بسر کی اکثر
بن بن کے پیر راہب جا خانقاہ بسائی
صوفی بھی بن کے دیکھا اور رند بے ریا بھی
کر نعرۂ انا الحق اک کھلبلی مچائی
پھرتی ہیں ماری ماری مشتاق جلوہ آنکھیں
پر اک جھلک سے بڑھ کر دیتا نہیں دکھائی
اٹھ جا نظر سے میری ہاں اے حجاب ہستی
حسن ازل نہاں ہے زیر نقاب ہستی
یہ زندگیٔ انساں اک خواب ہے پریشاں
بیدارئ عدم ہے تعبیر خواب ہستی
دیکھیں اگر تو کیوں کر ہم جلوۂ معارف
تو ظلمت نظر ہے اے آفتاب ہستی
تسکیں کو زہر قاتل آب و ہوائے عالم
راحت کا دشمن جاں ہر انقلاب ہستی
اے تشنۂ حقیقت دھوکے میں تو نہ آنا
اک دام پر خطر ہے موج سراب ہستی
چاہے اگر رہائی پیش از فنا فنا ہو
پاداش جرم ہستی ہے یہ عذاب ہستی

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse