اندھیری رات کا مسافر

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اندھیری رات کا مسافر
by مجاز لکھنوی

جوانی کی اندھیری رات ہے ظلمت کا طوفاں ہے
مری راہوں سے نور ماہ و انجم تک گریزاں ہے
خدا سویا ہوا ہے اہرمن محشر بداماں ہے
مگر میں اپنی منزل کی طرف بڑھتا ہی جاتا ہوں

غم و حرماں کی یورش ہے مصائب کی گھٹائیں ہیں
جنوں کی فتنہ خیزی حسن کی خونیں ادائیں ہیں
بڑی پر زور آندھی ہے بڑی کافر بلائیں ہیں
مگر میں اپنی منزل کی طرف بڑھتا ہی جاتا ہوں

فضا میں موت کے تاریک سائے تھرتھراتے ہیں
ہوا کے سرد جھونکے قلب پر خنجر چلاتے ہیں
گزشتہ عشرتوں کے خواب آئینہ دکھاتے ہیں
مگر میں اپنی منزل کی طرف بڑھتا ہی جاتا ہوں

زمیں چیں بر جبیں ہے آسماں تخریب پر مائل
رفیقان سفر میں کوئی بسمل ہے کوئی گھائل
تعاقب میں لٹیرے ہیں چٹانیں راہ میں حائل
مگر میں اپنی منزل کی طرف بڑھتا ہی جاتا ہوں

افق پر زندگی کے لشکر ظلمت کا ڈیرا ہے
حوادث کے قیامت خیز طوفانوں نے گھیرا ہے
جہاں تک دیکھ سکتا ہوں اندھیرا ہی اندھیرا ہے
مگر میں اپنی منزل کی طرف بڑھتا ہی جاتا ہوں

چراغ دیر فانوس حرم قندیل رہبانی
یہ سب ہیں مدتوں سے بے نیاز نور عرفانی
نہ ناقوس برہمن ہے نہ آہنگ ہدیٰ خوانی
مگر میں اپنی منزل کی طرف بڑھتا ہی جاتا ہوں

تلاطم خیز دریا آگ کے میدان حائل ہیں
گرجتی آندھیاں بپھرے ہوئے طوفان حائل ہیں
تباہی کے فرشتے جبر کے شیطان حائل ہیں
مگر میں اپنی منزل کی طرف بڑھتا ہی جاتا ہوں

فضا میں شعلہ افشاں دیو استبداد کا خنجر
سیاست کی سنانیں اہل زر کے خونچکاں تیور
فریب بے خودی دیتے ہوئے بلور کے ساغر
مگر میں اپنی منزل کی طرف بڑھتا ہی جاتا ہوں

بدی پر بارش لطف و کرم نیکی پہ تعزیریں
جوانی کے حسیں خوابوں کی ہیبت ناک تعبیریں
نکیلی تیز سنگینیں ہیں خوں آشام شمشیریں
مگر میں اپنی منزل کی طرف بڑھتا ہی جاتا ہوں

حکومت کے مظاہر جنگ کے پر ہول نقشے ہیں
کدالوں کے مقابل توپ بندوقیں ہیں نیزے ہیں
سلاسل تازیانے بیڑیاں پھانسی کے تختے ہیں
مگر میں اپنی منزل کی طرف بڑھتا ہی جاتا ہوں

افق پر جنگ کا خونیں ستارہ جگمگاتا ہے
ہر اک جھونکا ہوا کا موت کا پیغام لاتا ہے
گھٹا کی گھن گرج سے قلب گیتی کانپ جاتا ہے
مگر میں اپنی منزل کی طرف بڑھتا ہی جاتا ہوں

فنا کے آہنی وحشت اثر قدموں کی آہٹ ہے
دھویں کی بدلیاں ہیں گولیوں کی سنسناہٹ ہے
اجل کے قہقہے ہیں زلزلوں کی گڑگڑاہٹ ہے
مگر میں اپنی منزل کی طرف بڑھتا ہی جاتا ہوں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse