انداز کہیں دیکھا ہے مستانہ کسی کا
Appearance
انداز کہیں دیکھا ہے مستانہ کسی کا
شیدا ہی ہوا پھر دل دیوانہ کسی کا
ساقی نگہ مست سے تیری جو لڑے آنکھ
سرشار نہ کیوں کر رہے پیمانہ کسی کا
مسکن ہے خرابی کا تباہی کا ٹھکانہ
دل سے مرے بڑھ کر نہیں ویرانہ کسی کا
حوروں میں نہ یہ ناز نہ پریوں میں یہ انداز
پاتے ہیں چلن سب سے جداگانہ کسی کا
کہتے ہیں رقیبوں سے وہ سن کر مرے اشعار
مضموں ہمیں خوش آتا ہے رندانہ کسی کا
کچھ بنت عنب پر ترا قبضہ نہیں واعظ
ٹھیکے میں نہیں ہے ترے مے خانہ کسی کا
بھیجا ہے سوئے مے کدہ جو ابر خدا نے
مقبول ہوا نعرۂ مستانہ کسی کا
یاد آتا ہے کیا کیا طلب بوسۂ لب پر
منہ پھیر کے گھونگھٹ میں وہ شرمانا کسی کا
ذکر شب غم سن کے دلیرؔ ان کا بھی کہنا
ہم نیند میں سنتے نہیں افسانہ کسی کا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |