انداز کہیں دیکھا ہے مستانہ کسی کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
انداز کہیں دیکھا ہے مستانہ کسی کا
by نواب امراوبہادر دلیر

انداز کہیں دیکھا ہے مستانہ کسی کا
شیدا ہی ہوا پھر دل دیوانہ کسی کا

ساقی نگہ مست سے تیری جو لڑے آنکھ
سرشار نہ کیوں کر رہے پیمانہ کسی کا

مسکن ہے خرابی کا تباہی کا ٹھکانہ
دل سے مرے بڑھ کر نہیں ویرانہ کسی کا

حوروں میں نہ یہ ناز نہ پریوں میں یہ انداز
پاتے ہیں چلن سب سے جداگانہ کسی کا

کہتے ہیں رقیبوں سے وہ سن کر مرے اشعار
مضموں ہمیں خوش آتا ہے رندانہ کسی کا

کچھ بنت عنب پر ترا قبضہ نہیں واعظ
ٹھیکے میں نہیں ہے ترے مے خانہ کسی کا

بھیجا ہے سوئے مے کدہ جو ابر خدا نے
مقبول ہوا نعرۂ مستانہ کسی کا

یاد آتا ہے کیا کیا طلب بوسۂ لب پر
منہ پھیر کے گھونگھٹ میں وہ شرمانا کسی کا

ذکر شب غم سن کے دلیرؔ ان کا بھی کہنا
ہم نیند میں سنتے نہیں افسانہ کسی کا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse