انداز کچھ اور ناز و ادا اور ہی کچھ ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
انداز کچھ اور ناز و ادا اور ہی کچھ ہے
by نظیر اکبر آبادی

انداز کچھ اور ناز و ادا اور ہی کچھ ہے
جو بات ہے وہ نام خدا اور ہی کچھ ہے

نہ برق نہ خورشید نہ شعلہ نہ بھبھوکا
کیوں صاحبو یہ حسن ہے یا اور ہی کچھ ہے

بلور کی چمکیں ہیں نہ الماس کی جھمکیں
اس گورے سے سینے کی صفا اور ہی کچھ ہے

پیچھے کو نظر کی تو وہ گدی ہے قیامت
آگے کو جو دیکھا تو گلا اور ہی کچھ ہے

سینے پہ کہا میں نے یہ دو سیب ہیں کیا ہیں
شرما کے یہ چپکے سے کہا اور ہی کچھ ہے

تم باتیں ہمیں کہتے ہو اور سنتے ہیں ہم چپ
اپنی بھی خموشی میں صدا اور ہی کچھ ہے

ہیں آپ کی باتیں تو شکر ریز پر اے جاں
اس گونگے کے گڑ میں بھی مزا اور ہی کچھ ہے

پوچھی جو دوا ہم نے طبیبوں سے تو بولے
بیماری نہیں ہے یہ بلا اور ہی کچھ ہے

عناب نہ خطمی نہ بنفشہ نہ خیارین
اس ڈھب کے مریضوں کی دوا اور ہی کچھ ہے

ہم کو تو نظیرؔ ان سے شکایت ہے جفا کی
اور ان کا جو سنیے تو گلہ اور ہی کچھ ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse