انجام یہ ہوا ہے دل بے قرار کا
Appearance
انجام یہ ہوا ہے دل بے قرار کا
تھمتا نہیں ہے پانوں ہمارے غبار کا
پہلے کیا خیال نہ گل کا نہ خار کا
اب دکھ رہا ہے پانوں نسیم بہار کا
پیہم دیے وہ رنج کہ انساں بنا دیا
منت پذیر ہوں ستم روزگار کا
اس کو خزاں کے آنے کا کیا رنج کیا قلق
روتے کٹا ہو جس کو زمانہ بہار کا
مخفی ہے اس میں راز بقائے حیات عشق
کیا پوچھتے ہو حال دل بے قرار کا
مجبوریاں ستم ہیں وگرنہ خدا کی شان
میں اور یوں گزار دوں موسم بہار کا
غافل نگاہ ہوش سے رنگ چمن کو دیکھ
پروردۂ خزاں ہے زمانہ بہار کا
نکلا ہے دم رواںؔ کا تمنا کے ساتھ ساتھ
اللہ رے زور نالۂ بے اختیار کا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |