انجام وفا بھی دیکھ لیا اب کس لیے سر خم ہوتا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
انجام وفا بھی دیکھ لیا اب کس لیے سر خم ہوتا ہے
by اقبال سہیل

انجام وفا بھی دیکھ لیا اب کس لیے سر خم ہوتا ہے
نازک ہے مزاج حسن بہت سجدے سے بھی برہم ہوتا ہے

مل جل کے بہ رنگ شیر و شکر دونوں کے نکھرتے ہیں جوہر
دریاؤں کے سنگم سے بڑھ کر تہذیب کا سنگم ہوتا ہے

کچھ ما و شما میں فرق نہیں کچھ شاہ و گدا میں بھید نہیں
ہم بادہ کشوں کی محفل میں ہر جام بکف جم ہوتا ہے

دیوانوں کے جبہ و دامن کا اڑتا ہے فضا میں جو ٹکڑا
مستقبل ملت کے حق میں اقبال کا پرچم ہوتا ہے

منصور جو ہوتا اہل نظر تو دعویٔ باطل کیوں کرتا
اس کی تو زباں کھلتی ہی نہیں جو راز کا محرم ہوتا ہے

تا چند سہیلؔ افسردۂ غم کیا یاد نہیں تاریخ حرم
ایماں کے جہاں پڑتے ہیں قدم پیدا وہیں زمزم ہوتا ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse