انجام خوشی کا دنیا میں سچ کہتے ہو غم ہوتا ہے
انجام خوشی کا دنیا میں سچ کہتے ہو غم ہوتا ہے
ثابت ہے گل اور شبنم سے جو ہنستا ہے وہ روتا ہے
ہم شوق کا نامہ لکھتے ہیں کہ صبر اے دل کیوں روتا ہے
یہ کیا ترکیب ہے اے ظالم ہم لکھتے ہیں تو دھوتا ہے
ہے دل اک مرد آخر بیں اپنے اعمال پر روتا ہے
گر ڈوب کے دیکھو اشک نہیں موتی سے کچھ یہ پروتا ہے
گھر اس سے عشق کا بنتا ہے دل سختی سے کیوں گھبرائے
شیریں یہ محل اٹھواتی ہے فرہاد یہ پتھر ڈھوتا ہے
ٹھکرا کر نعش ہر عیسیٰ کہتا ہے ناز سے ہو برہم
اٹھ جلد کھڑے ہیں دیر سے ہم کن نیندوں غافل سوتا ہے
ہم رو رو اشک بہاتے ہیں وہ طوفاں بیٹھے اٹھاتے ہیں
یوں ہنس ہنس کر فرماتے ہیں کیوں مرد کا نام ڈبوتا ہے
کیا سنگ دلی ہے الفت میں ہم جس کی جان سے جاتے ہیں
انجان وہ بن کر کہتا ہے کیوں جان یہ اپنی کھوتا ہے
لے دے کے سارے عالم میں ہمدرد جو پوچھو اک دل ہے
میں دل کے حال پہ روتا ہوں دل میرے حال پہ روتا ہے
دکھ درد نے ایسا زار کیا اک گام بھی چلنا دوبھر ہے
چلئے تو جسم زار اپنا خود راہ میں کانٹے بوتا ہے
وہ امنگ کہاں وہ شباب کہاں ہوئے دونوں نذر عشق مژہ
پوچھو مت عالم دل کا مرے نشتر سا کوئی چبھوتا ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |