انتہا صبر آزمائی کی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
انتہا صبر آزمائی کی
by قربان علی سالک بیگ

انتہا صبر آزمائی کی
ہے درازی شب جدائی کی

ہے برائی نصیب کی کہ مجھے
تم سے امید ہے بھلائی کی

نقش ہے سنگ آستاں پہ ترے
داستاں اپنی جبہ سائی کی

تم سے کچھ مل کے خوش ہوا ہوں کہ ہوں
دہر میں حسرت آشنائی کی

ہے فغاں بعد امتحان فغاں
پھر شکایت ہے نارسائی کی

کیا نہ کرتا وصال شادیٔ مرگ
تم نے کیوں مجھ سے کج ادائی کی

راز کھلتے گئے مرے سب پر
جس قدر اس نے خود نمائی کی

کتنے عاجز ہیں ہم کہ پاتے ہیں
بندے بندے میں لو خدائی کی

رہ گئیں دل میں حسرتیں سالکؔ
آ گئی عمر پارسائی کی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse