انتہائے عشق ہو یوں عشق میں کامل بنو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
انتہائے عشق ہو یوں عشق میں کامل بنو
by عزیز لکھنوی

انتہائے عشق ہو یوں عشق میں کامل بنو
خاک ہو کر بھی نشان سرحد منزل بنو

میرے شکوؤں پر یہ کہنا رحم کے قابل بنو
مدعا یہ ہے کہ اپنے حال سے غافل بنو

غرق ہو کر رول لو موتی خود اپنے واسطے
ڈوب کر ابھرو تو اوروں کے لیے ساحل بنو

انجمن کیسی تم اپنی ذات سے ہو انجمن
گوشۂ خلوت میں بھی بیٹھو تو اک محفل بنو

حسن خود بیں معجزات عشق کا قائل نہیں
قطرہ ہائے اشک خونیں جمع ہو کر دل بنو

ساتھ آزادی کے خود داری بھی رہنا چاہئے
بحر بے پایاں کبھی لب خشکئ ساحل بنو

علم کا دورہ لہو کے ساتھ رگ رگ میں رہے
جوہر قابل اگر ہو قوت عامل بنو

شرم سے تم کو سمٹنا ہے تو سمٹو حسن سے
دل میں بن جاؤ سویدا پتلیوں میں تل بنو

ربط باطن کیا سنو تفصیل اس اجمال کی
ہم سراپا درد ہوں اور تم سراپا دل بنو

جلنے والو تا بہ امکاں ضبط سوز غم کرو
آگ جب بھڑکے چراغ سرحد منزل بنو

کچھ دنوں بیٹھو سر قبر عزیزؔ بے نوا
خانقاہوں میں بہت دشوار ہے کامل بنو

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse