انتظار حشر کر سکتے نہیں ناکام عشق

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
انتظار حشر کر سکتے نہیں ناکام عشق
by منشی نوبت رائے نظر لکھنوی

انتظار حشر کر سکتے نہیں ناکام عشق
آج ہی ہو جائے ہونا ہو جو کل انجام عشق

ابتدا میں درد فرقت موت ہے انجام عشق
اہل دل کو نا موافق ہے ہوائے بام عشق

بے خودی میں ڈبڈبا آئے ہیں آنسو آنکھ میں
المدد اے ضبط چھلکا چاہتا ہے جام عشق

اس کی الفت نے کیا رسوائے عالم کس قدر
انگلیاں اٹھتی ہیں جاتے ہیں جدھر بدنام عشق

کیوں نصیحت میں تری ناصح ہیں یہ دل سوزیاں
کیا ترے دل پر گزرتے ہیں مرے آلام عشق

چشم گریاں قلب نالاں کی شماتت قہر ہے
دونوں مل کر اک مجھی کو دیتے ہیں الزام عشق

حسرتیں بھی آج دل کے ساتھ ہی دم توڑ دیں
آگے پیچھے ساتھ والوں کا نہ ہو انجام عشق

بام پر آ کر ذرا بکھرائیے زلف دراز
پھیل جائے سارے عالم میں سواد شام عشق

اور کیا اعجاز ہوتا حسن لیلیٰ کے لیے
مر گیا مجنوں مگر زندہ ہے اب تک نام عشق

چار ہی دن میں نظرؔ تم اس قدر گھبرا گئے
آسماں سے کوئی پوچھے گردش ایام عشق

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse