امید ٹوٹی ہوئی ہے میری جو دل مرا تھا وہ مر چکا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
امید ٹوٹی ہوئی ہے میری جو دل مرا تھا وہ مر چکا ہے
by اکبر الہ آبادی

امید ٹوٹی ہوئی ہے میری جو دل مرا تھا وہ مر چکا ہے
جو زندگانی کو تلخ کر دے وہ وقت مجھ پر گزر چکا ہے

اگرچہ سینے میں سانس بھی ہے نہیں طبیعت میں جان باقی
اجل کو ہے دیر اک نظر کی فلک تو کام اپنا کر چکا ہے

غریب خانے کی یہ اداسی یہ نا درستی نہیں قدیمی
چہل پہل بھی کبھی یہاں تھی کبھی یہ گھر بھی سنور چکا ہے

یہ سینہ جس میں یہ داغ میں اب مسرتوں کا کبھی تھا مخزن
وہ دل جو ارمان سے بھرا تھا خوشی سے اس میں ٹھہر چکا ہے

غریب اکبر کے گرد کیوں میں خیال واعظ سے کوئی کہہ دے
اسے ڈراتے ہو موت سے کیا وہ زندگی ہی سے ڈر چکا ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse