امتحاں کے لیے جفا کب تک

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
امتحاں کے لیے جفا کب تک
by مومن خان مومن

امتحاں کے لیے جفا کب تک
التفات ستم نما کب تک

غیر ہے بے وفا پہ تم تو کہو
ہے ارادہ نباہ کا کب تک

جرم معلوم ہے زلیخا کا
طعنۂ دست نارسا کب تک

مجھ پہ عاشق نہیں ہے کچھ ظالم
صبر آخر کرے وفا کب تک

دیکھیے خاک میں ملاتی ہے
نگہ چشم سرمہ سا کب تک

کہیں آنکھیں دکھا چکو مجھ کو
جانب غیر دیکھنا کب تک

نہ ملائیں گے وہ نہ آئیں گے
جوش لبیک و مرحبا کب تک

ہوش میں آ تو مجھ میں جان نہیں
غفلت جرأت آزما کب تک

لے شب وصل غیر بھی کاٹی
تو مجھے آزمائے گا کب تک

تم کو خو ہو گئی برائی کی
درگزر کیجیئے بھلا کب تک

مر چلے اب تو اس صنم سے ملیں
مومنؔ اندیشۂ خدا کب تک

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse