امتحان و صبر کی حد کیوں پڑے تاخیر میں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
امتحان و صبر کی حد کیوں پڑے تاخیر میں
by بیخود موہانی

امتحان و صبر کی حد کیوں پڑے تاخیر میں
جو نہ لکھوائے کوئی لکھ دے مری تقدیر میں

خواب ہستی دیکھنے والے تھے کیسے بد نصیب
خواب کا عالم بھی گزرا دہشت تعبیر میں

حشر میں ہلچل ہوئی قاتل کو غش آنے لگے
آئے وہ کچھ بے گنہ جکڑے ہوئے زنجیر میں

ان نصیبوں پر تھی قدرت سے الجھنے کی امنگ
عمر بھر چوٹیں چلیں تدبیر اور تقدیر میں

اور ہی عالم ہے کچھ دنیائے حسن و عشق کا
ہے یہاں جو شے بھی ہے ڈوبی ہوئی تاثیر میں

ناز سجدے میں ادا حیرت میں جلوے وجد میں
دل نے یہ دیکھا حریم دوست کی تصویر میں

ذرہ ذرے سے صدائے بازگشت آنے لگی
اور کیا ہوتا اثر ظالم تری تقریر میں

دل کو پیدا کرکے فطرت خود غضب میں پڑ گئی
محو ہے اخفائے راز دہر کی تدبیر میں

جس میں تھیں ساری خیال یار کی آزادیاں
وہ دل رم آفریں جکڑا رہا زنجیر میں

کیوں کسی نے نقش آشوب تمنا کھینچ کر
بھر دیا مجبوریوں کا رنگ ہر تصویر میں

اللہ اللہ ایک ذرے کی بھی حد ملتی نہیں
رنگ ہو نقاش کا اتنا تو ہر تصویر میں

پائے بیخودؔ میں کچھ ایسی بیڑیاں ڈالی گئیں
جن سے بعد حشر بھی چھٹنا نہ تھا تقدیر میں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse