امانت محتسب کے گھر شراب ارغواں رکھ دی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
امانت محتسب کے گھر شراب ارغواں رکھ دی
by سائل دہلوی

امانت محتسب کے گھر شراب ارغواں رکھ دی
تو یہ سمجھو کہ بنیاد خربات مغاں رکھ دی

کہوں کیا پیش زاہد کیوں شراب ارغواں رکھ دی
مری توفیق جو کچھ تھی برائے میہماں رکھ دی

یہاں تک تو نبھایا میں نے ترک مے پرستی کو
کہ پینے کو اٹھا لی اور لیں انگڑائیاں رکھ دی

جناب شیخ مے خانے میں بیٹھے ہیں برہنہ سر
اب ان سے کون پوچھے آپ نے پگڑی کہاں رکھ دی

تمہیں پروا نہ ہو مجھ کو تو جنس دل کی پروا ہے
کہاں ڈھونڈوں کہاں پھینکی کہاں دیکھوں کہاں رکھ دی

لگا لیں گے اسے اہل وفا بے شبہ آنکھوں سے
اگر پائے عدو پر اس نے خاک آستاں رکھ دی

ادھر پر نوچ کر ڈالا قفس میں اف رے بیدردی
ادھر اک جلتی چنگاری میان آشیاں رکھ دی

ضمیر اس کا ڈبو دے گا اسے آب خجالت میں
وفاداری کی تہمت غیر پر کیوں بد گماں رکھ دی

ہوس مستی کی سائلؔ کو نہیں کافی ہے تھوڑی سی
پیالے میں اگر پس خوردۂ پیر مغاں رکھ دی

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse