الٹے وہ شکوے کرتے ہیں اور کس ادا کے ساتھ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
الٹے وہ شکوے کرتے ہیں اور کس ادا کے ساتھ
by مومن خان مومن

الٹے وہ شکوے کرتے ہیں اور کس ادا کے ساتھ
بے طاقتی کے طعنے ہیں عذر جفا کے ساتھ

بہر عیادت آئے وہ لیکن قضا کے ساتھ
دم ہی نکل گیا مرا آواز پا کے ساتھ

بے پردہ غیر پاس اسے بیٹھا نہ دیکھتے
اٹھ جاتے کاش ہم بھی جہاں سے حیا کے ساتھ

وہ لالہ رو گیا نہ ہو گلگشت باغ کو
کچھ رنگ بوئے گل کے عوض ہے صبا کے ساتھ

اس کی گلی کہاں یہ تو کچھ باغ خلد ہے
کس جاے مجھ کو چھوڑ گئی موت لا کے ساتھ

آتی ہے بوئے داغ شب تار ہجر میں
سینہ بھی چاک ہو نہ گیا ہو قبا کے ساتھ

گلبانگ کس کا مشورۂ قتل ہو گیا
کچھ آج بوئے خوں ہے وہاں کی ہوا کے ساتھ

تھے وعدے سے پھر آنے کے خوش یہ خبر نہ تھی
ہے اپنی زندگانی اسی بے وفا کے ساتھ

کوچہ سے اپنے غیر کا منہ ہے مٹا سکے
عاشق کا سر لگا ہے ترے نقش پا کے ساتھ

اللہ رے گمرہی بت و بت خانہ چھوڑ کر
مومنؔ چلا ہے کعبے کو اک پارسا کے ساتھ

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse