الٹی ہر ایک رسم جہان شعور ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
الٹی ہر ایک رسم جہان شعور ہے
by اسماعیل میرٹھی

الٹی ہر ایک رسم جہان شعور ہے
سیدھی سی اک غزل مجھے لکھنی ضرور ہے

وحدت میں اعتبار حدوث و قدم نہیں
تھا جو بطون میں یہ وہی تو ظہور ہے

تارک وہی ہے جس نے کیا کل کو اختیار
یعنی حریص تر ہے وہی جو صبور ہے

مطلق یگانگی ہے تو نزدیک و دور کیا
پہنچا ہے جو قریب وہی دور دور ہے

اصل حیات ہے یہی کہتے ہیں جس کو موت
جینے کی آرزو ہے تو مرنا ضرور ہے

اقرار بندگی ہے خدائی کا ادعا
عجز و نیاز کیا ہے کمال غرور ہے

امید کیجئے اگر امید کچھ نہیں
غم کھائیے بہت جو خیال سرور ہے

زلف سیاہ سے رخ تاباں کا حسن ہے
کہتے ہو جس کو دیو حقیقت میں حور ہے

بے معصیت خزانۂ رحمت ہے رائیگاں
سچ پوچھئے تو جرم نہ کرنا قصور ہے

اظہار جان پاک ہے جسم کثیف سے
بے پردگی حجاب ہے ظلمت ہی نور ہے

بالاتفاق ہستیٔ وہمی ہے نیتی
ہشیار ہے جو نشۂ غفلت میں چور ہے

اعلیٰ تھا جس کا رتبہ وہ اسفل میں ہے اسیر
صف نعال موقف صدر الصدور ہے

ہے راہ کی تلاش تو کر گمرہی طلب
عاقل وہی ہے عقل میں جس کی فتور ہے

بیداریٔ وجود ہے خواب عدم میں غرق
لب بند ہو گئے یہی شور نشور ہے

ہر چند شغل شعر نہیں آج کل ضرور
نذرانہ پیر جی کے لئے کچھ ضرور ہے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.