اللہ رے فیض ایک جہاں مستفید ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اللہ رے فیض ایک جہاں مستفید ہے
by بیدم وارثی

اللہ رے فیض ایک جہاں مستفید ہے
ہر مست میرے پیر مغاں کا مرید ہے

واعظ عبث یہ ذکر عذاب شدید ہے
اک توبہ قفل رحمت حق کی کلید ہے

وحشت نے ہم کو جامۂ خاکی پہنا دیا
اے عقل اب یہ کاہے کی قطع و برید ہے

اے رہروان جادۂ الفت بڑھے چلو
یہ کس نے کہہ دیا ہے کہ منزل بعید ہے

کیونکر نہ قرب حق کی طرف دل مرا کیجیے
گردن اسیر حلقۂ حبل الورید ہے

اب جام جم کی مجھ کو ضرورت نہیں رہی
وہ دل ملا ہے جس میں دو عالم کی دید ہے

واللیل ہے کہ زلف معنبر حضور کی
یہ روئے پاک ہے کہ کلام مجید ہے

ہلکی سی اک خراش ہے قاصد کے حلق پر
یہ خط جواب خط ہے کہ خط کی رسید ہے

خنجر بکف وہ کہتے ہیں اب آئے سامنے
کس کو خیال وصل ہے ارمان دید ہے

مجھ خستہ دل کی عید کا کیا پوچھنا حضور
جن کے گلے سے آپ ملے ان کی عید ہے

تو دیکھے اور بندے پہ تیرے عذاب ہو
یارب یہ تیری شان کرم سے بعید ہے

شیشے کا معتقد ہے ارادت ہے جام سے
کس پیر مے فروش کا بیدمؔ مرید ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse