اللہ اللہ وصل کی شب اس قدر اعجاز ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اللہ اللہ وصل کی شب اس قدر اعجاز ہے
by بوم میرٹھی

اللہ اللہ وصل کی شب اس قدر اعجاز ہے
ایک ذرا سی چیز ہے اس پر بھی اتنا ناز ہے

خیر ہو یا رب کے حسن و عشق کا آغاز ہے
اس طرف دل ہے ادھر سسری نگاہ ناز ہے

جب بہار آئی موے پنجرے چمن کو اڑ گیا
اس مصیبت پر بھی اتنی قوت پرواز ہے

چھٹ گئیں نبضیں ہوئے لب بند پتلی پھر گئیں
اور وہ مردود کہتا ہے کہ یہ دم باز ہے

غیر نے مجھ کو ستا کر جیل کی کھائی ہوا
یہ نہ سمجھا تھا کہ اس کا لٹھ بے آواز ہے

جب کہا اس نے کہ اٹھ بے جھٹ میں زندہ ہو گیا
بات کی تو بات ہے اعجاز کا اعجاز ہے

توڑ کر بدنام تم دل کو مرے ہو جاؤ گے
اس میں پوشیدہ محبت کا تمہاری راز ہے

غیر کو لائے ہیں میرے گھر وہ مع بسترے
بھید اس میں بھی کوئی اس میں بھی کوئی راز ہے

عشق میں پیدا نہیں ہوتا ہے سسرا انقلاب
حسن دے جاتا ہے دھوکہ حسن دھوکہ باز ہے

اب کوئی دن بھی بڑھاپا ٹھوکریں کھلوائے گا
حسن ہے چند روزہ جس پہ تم کو ناز ہے

نوچ کر میرے پروں کو کر دیا ہے ڈنڈ منڈ
اب نہ قوے ہے نہ مجھ میں طاقت پرواز ہے

وصل کی شب چار دم چھلے بھی ان کے ساتھ ہیں
یعنی شوخی ہے شرارت ہے حیا ہے ناز ہے

غیر کی کچھ حیثیت بھی آپ کو معلوم ہے
خود ہے چوکیدار بادہ اس کا برفنداز ہے

میری فریاد و فغاں سن کر حرامی نے کہا
یہ اسی الو کے پٹھے بومؔ کی آواز ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse