الفت یہ چھپائیں ہم کسی کی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
الفت یہ چھپائیں ہم کسی کی
by گویا فقیر محمد

الفت یہ چھپائیں ہم کسی کی
دل سے بھی کہیں نہ اپنی جی کی

جانے وہ کیا کسی کی جی کی
جس کو الفت نہ ہو کسی کی

خواہش نہ بر آئی اپنی جی کی
ہم نے کس کس کی دوستی کی

اچھی نہیں شرح عاشقی کی
پوچھو نہ اجی کسی کی جی کی

یہ روئے کہ نامہ بہہ کے پہنچا
اشکوں نے ہمارے قاصدی کی

سرخی مگر اس کے لب کی دیکھی
رنگت ہے سفید آرسی کی

عاشق تھے وہ ہم کہ بعد اپنے
مٹی ہی خراب عاشقی کی

اے ابر شب فراق سچ کہہ
روتے کٹتی ہے شب کسی کی

دل زلف رسا تلک تو پہنچا
اتنی بختوں نے رہبری کی

بجلی چمکی تو ابر رویا
یاد آ گئی کیا ہنسی کسی کی

ہم کسی کی گلی کی راہ بھولے
جو خضر نے بھی نہ رہبری کی

دل کو مرے خاک میں ملایا
دلبر نے خوب دلبری کی

سوزش مرے دل کی دیکھ اے ماہ
کر سیر اس برج آتشی کی

وہ طفل نصیری آئے شاید
قسمیں دوں مرتضیٰ علی کی

گردن زدنی تھی شمع سرکش
کیوں اس کی گلی سے ہم سری کی

بس رکھ دیا خط میں برگ سوسن
جب لکھ نہ سکے صفت مسی کی

ٹھکرا کے چلی جبیں کو میرے
قسمت کے لکھے نے یاوری کی

یہ رشک ہے منہ جو یار دیکھے
صورت دیکھوں نہ آرسی کی

بھولا تھا میں راہ کوئے قاتل
تو نے اے موت رہبری کی

اس کے گردن تلک نہ پہنچا
اے دست دراز کوتہی کی

دل کو پالا بغل میں تو نے
گویا دشمن سے دوستی کی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse