الفت نے تری ہم کو تو رکھا نہ کہیں کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
الفت نے تری ہم کو تو رکھا نہ کہیں کا
by واجد علی شاہ

الفت نے تری ہم کو تو رکھا نہ کہیں کا
دریا کا نہ جنگل کا سما کا نہ زمیں کا

اقلیم معانی میں عمل ہو گیا میرا
دنیا میں بھروسہ تھا کسے تاج و نگیں کا

تقدیر نے کیا قطب فلک مجھ کو بنایا
محتاج مرا پاؤں رہا خانۂ زیں کا

اک بوریے کے تخت پہ اوقات بسر کی
زاہد بھی مقلد رہا سجادہ نشیں کا

اخترؔ قلم فکر کے بھی اشک ہیں جاری
کیا حال لکھوں اپنے دل زار و حزیں کا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse