الفت نہ کروں گا اب کسی کی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
الفت نہ کروں گا اب کسی کی
by رند لکھنوی

الفت نہ کروں گا اب کسی کی
دشمن ہوا جس سے دوستی کی

حالت کہوں اپنی بے خودی کی
دل دے کے سنو جو میرے جی کی

اول اول بھلائیاں کیں
آخر آخر بہت بری کی

مصروف ہے سینہ کوبی میں دل
آتی ہے صدا دھڑا دھڑی کی

الفت پہ تیری خاتمہ ہے
اب لے لے قسم تو عاشقی کی

کرتے رہے اختراع آپھی
تقلید نہ کی کبھی کسی کی

رونے پہ میرے ہنستے ہیں آپ
ہنس لیجئے بات ہے ہنسی کی

کیوں کر نہ فریفتہ ہو انساں
تن حور کا شکل ہے پری کی

شیریں دہنو نہیں ہے زیبا
تم باتیں کرو نہ پھیکی پھیکی

دیوانہ ہوا ہوں اک پری کا
تقصیر یہ ہے تو واقعی کی

بے یار ہے دل کباب ساقی
تکلیف نہ کر تو مے کشی کی

آنکھیں لڑیں تجھ سے میں ہوا قتل
ان ترکوں نے جنگ زرگری کی

کرنے دو بدی جو کرتے ہیں غیر
سنتا نہیں رندؔ وہ کسی کی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse