الفت میں عیاں سوز بتاں ہو نہیں سکتا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
الفت میں عیاں سوز بتاں ہو نہیں سکتا
by ریاض خیرآبادی

الفت میں عیاں سوز بتاں ہو نہیں سکتا
یہ آگ ہے ایسی کہ دھواں ہو نہیں سکتا

کیا پارۂ دل کوئی زباں ہو نہیں سکتا
کیا اڑ کے لہو رنگ فغاں ہو نہیں سکتا

او جلوہ گہ طور کے کھل کھیلنے والے
کیا دل کوئی خلوت کا مکاں ہو نہیں سکتا

مجھ کو ہے لب جام شکستہ بھی مہ عید
ساقی یہ ہلال رمضاں ہو نہیں سکتا

جوبن سے ہے مسکی ہوئی محرم کا اشارہ
یہ دن وہ ہیں کوئی نگراں ہو نہیں سکتا

جانے میں وہاں آندھی ہے اے آہ رسا تو
کیا اشک رواں سیل رواں ہو نہیں سکتا

دن اور جگہ اور ہو اے داور محشر
انصاف حسینوں کا یہاں ہو نہیں سکتا

دیوانۂ لیلیٰ کو نہ لیلیٰ سے رہا کام
کچھ اور بلا ہے خفقاں ہو نہیں سکتا

جو دام اٹھیں حسن جوانی کے وہ کم ہیں
سودا یہ کسی طرح گراں ہو نہیں سکتا

بت خانے بنا کرتے ہیں کس طرح مساجد
جب نغمۂ ناقوس اذاں ہو نہیں سکتا

دیوانوں کا انداز اڑاتے ہیں عنادل
دیوانے میں یہ رنگ فغاں ہو نہیں سکتا

یہ جان کو میری ہے عذاب آٹھ پہر کا
دل سا بھی کوئی آفت جاں ہو نہیں سکتا

ہیں پیری و طفلی و جوانی کے مزے اور
دنیا سا کوئی اور جہاں ہو نہیں سکتا

بدلے ہوئے ہیں چرخ کے سب چاند ستارے
وہ وصل کی راتیں وہ سماں ہو نہیں سکتا

بننے کو ریاضؔ آپ بنیں کوہ کن و قیس
ہیں ساختہ باتیں خفقاں ہو نہیں سکتا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse