الجھن کی کہانی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
الجھن کی کہانی
by میراجی

ایک اکہرا دوسرا دہرا تیسرا ہے سو تہرا ہے
ایک اکہرے پر پل پل کو دھیان کا خونیں پہرہ ہے
دوسرے دوہرے کے رستے میں تیسرا کھیل کا مہرہ ہے
تیسرا تہرہ جو ہے اس کا سب سے اجاگر چہرہ ہے
گویا اکہرا پہرا دہرہ مہرا، تہرا چہرہ ہے
ایک اکہرا کاغذ دہرا تہرا ہو کر ناؤ بنی
ناؤ سے پل بھر بچے بہلے کھیل کھیل میں گھاؤ بنی
گھاؤ بنی تو دل میں دھیان یہ آیا کہہ دیں آؤ بنی

بن بن کر جو کھیل بگڑ جاتے ہیں ان کی بات نہیں
کوئی جنازہ بھی یہ نہیں ہے اور کوئی بارات نہیں
یہ اک ایسا دن ہے جس کے آگے پیچھے رات نہیں

تہرے کی ہر تہہ میں یوں تو ایک نیا ہی چہرا ہے
لیکن ہر ایک چہرا اس بن کھیلے کھیل کا مہرا ہے
جس کا رنگ اکہرا ہے

آگے بات بڑھائیں کیسے بات بنے تو بات بڑھے
اب تک رنگ اکہرا تھا گر کوئی بڑھا تو ہاتھ بڑھے
ہونی کی تو ریت یہی ہے چھوٹے دن کی رات بڑھے
اب تو جو بھی بڑھنا چاہے اپنے ساتھ ہی ساتھ بڑھے
آگے پیچھے دوڑ دوڑ کر اک آگے اک پیچھے ہے
پیچھے والا کیسے بڑھے جب آگے والا بھی دوڑے
دونوں چوٹ برابر کی ہیں یہ دونوں سے کون کہے
ہار اور جیت اسی میں ہے اب کون رکے اور کون بڑھے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse