الا یا شاہ خوباں کیجیے شاد

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
الا یا شاہ خوباں کیجیے شاد
by ماتم فضل محمد

الا یا شاہ خوباں کیجیے شاد
ہوئے جاتے ہیں عاشق غم سے برباد

ہمیں تم یاد ہو ہر لحظہ لیکن
ہماری بھی کبھی تو کیجیے یاد

گرفتار بلا بالائے تو یار
غم دوراں سے ہیں جوں سرو آزاد

اگر لیلیٰ ہے تو مجنوں ہیں ہم
وگر شیریں ہے تو ہم ہیں فرہاد

وہی ایراد کر سکتا ہے آخر
کیا ہے جس نے اول ہم کو ایجاد

کسی شے کو درست و چست دائم
نہ دیکھا در جہان سست بنیاد

شعر ہے اشک چشم و لخت دل سے
اٹھایا چاہئے ہم آب و ہم زاد

گل تر خار سے سمجھیں بتر تر
جو دیکھیں عندلیباں روتے صیاد

گلوئے گل تو پکڑے آخر کار
گئے کب رائیگاں بلبل کے فریاد

عبث کرتے ہو بہر ترک تکرار
عزیزو ہوں میں دخت رز کا داماد

نہیں جس روز میعاد آمد یار
وہی ہم جانتے ہیں روز میعاد

بہت فرزانہ تھے دیوانہ ہم کو
بنائے شوخ طفلان پریزاد

حمل مریخ معشوقوں نے میرا
کیا ہے سر جدا از تیغ بیداد

ہزاراں شکر ملک سندھ میں بھی
مرا مسکن ہے شہر حیدرآباد

جناب حیدر صفدر سے ماتمؔ
طلب اوقات مشکل میں کر امداد

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse